آج کل پکڑ دھکڑ کے ساتھ ساتھ الیکشن کی سرگرمیاں بھی جاری ہیں، انہی دنوں میں بودی سرکار آتے جاتے میرے پاس رک جاتے ہیں۔ آج پھر وہ رک گئے ہیں، سر پر سفید پگڑی، پورا لباس ہی سفید ہے بلکہ بودی سرکار کا گھوڑا بھی سفید ہے۔ اب بودی سرکار بیٹھ گئے ہیں، ان کے ارد گرد دس بارہ افراد ہیں، یہ افراد آپس میں عمران خان کو ہونے والی سزاؤں پر گفتگو کر رہے ہیں، چائے اور حقے کا دور چل رہا ہے، انہی دس بارہ بندوں میں سے کسی ایک نے بودی سرکار سے سوال کیا، اب کیا ہو گا سرکار؟ بودی سرکار نے سوال کرنے والے کی طرف غور سے دیکھا اور پھر مجھ سے کہنے لگے’’بڑے تیز بندے ہیں تمہارے پاس‘‘ خیر میں اس سوال کا جواب دیتا ہوں۔ اچھا ہوا تمہارے ساتھ، تمہارے ساتھ یہی ہونا چاہئے تھا، تم نا قدرے لوگ ہو۔ وہ تو ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی کوشش کر رہا تھا حالانکہ اس کے دور میں کورونا رہا مگر وہ پھر بھی جی ڈی پی گروتھ 6.2فیصد پر لے گیا۔ اس نے ایکسپورٹ میں ریکارڈ اضافہ کیا، اس نے تیس سال سے بند ٹیکسٹائل یونٹس چلا دئیے۔ اس نے کسان کو خوشحال بنایا۔ ہر ایک فرد کی جیب میں صحت کے نام پر دس لاکھ روپے ڈال دیئے۔ دور دراز سے آنےوالوں کیلئے پناہ گاہیں بنا دیں، بھوکوںکیلئے لنگر خانے کھول دیئے، وہ ماحولیاتی تبدیلی کی بات کرتا تھا، پچاس سال بعد اس نے دس ڈیموں پر کام شروع کروایا، وہ ایک نصاب کا قائل تھا، اس نے قرآنی تعلیمات کو لازم قرار دیا، اس نے سیرت النبیﷺ اتھارٹی قائم کی، اس نے دنیا کو بتایا کہ جب کبھی توہین آمیز خاکے شائع ہوتے ہیں تو ہمارے دلوں کو تکلیف ہوتی ہے، اس نے اقوام عالم سے منوایا کہ ہر سال 15 مارچ کو اسلامو فوبیا ڈے منایا جائے۔ لوگوں نے تو قومی خزانے سے چیزیں بنائی ہوں گی، اس نے اس وقت شوکت خانم اسپتال بنایا جب وہ صرف ہیرو تھا، اس نے میانوالی میں اس وقت نمل کالج بنایا جب وہ اقتدار میں نہیں تھا۔ وہ دنیائے کرکٹ کا ہیرو ہے، اسے دنیا کے ہر ملک میں ہیرو کے روپ میں دیکھا گیا، عالمی یونیورسٹیوں میں لیکچرز دیتا رہا بلکہ برطانیہ کی بریڈفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر رہا۔ تم پیسوں کی کیا بات کرتے ہو۔ جب اس کی جمائما سے طلاق ہو رہی تھی تو اس وقت اسے قانونی طور پر قریباً ساڑھے سات ارب پاؤنڈ مل رہے تھے مگر اس نے جائز اور قانونی دولت چھوڑ دی۔ وہ کمنٹریاں کرتا تو سب سے مہنگا مبصر ہوتا۔ وہ ملک سنوارنے کی آرزو لے کر سیاست میں آیا، وزیراعظم بنا، طاقتوروں کی بہت سی باتیں ماننے سے انکار کرتا رہا۔ اس نے حقیقی آزادی کی آرزو میں غلامی قبول کرنے سے انکار کیا تو تمہارے ملک کے سارے مافیاز اس کے خلاف ہو گئے۔ اسے اقتدار سے الگ کیا گیا، اس کیلئے ہر طرف مشکل راستے بنا دیئے گئے، اسے جیل میں ڈال دیا گیا، جبر کے ساتھ اس کی پارٹی بکھیری گئی، اس کا نشان چھین لیا گیا۔ اب اسے دو ایسے مقدمات میں سزا سنا دی گئی ہے کہ جن کی ہاں ناں کی بھی سمجھ نہیں آتی۔ تمہیں پتہ ہے تمہارے ملک کا یہ حال کیوں ہے؟ اس کی بڑی خاص وجہ ہے، تمہارے ملک کے بڑے بڑے ایوانوں، ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم میں جو حلف اٹھایا جاتا ہے، اس کی پاسداری نہیں کی جاتی۔ تمہارے ملک میں عدلیہ سمیت کئی سرکاری اداروں کے لوگ اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر حلف اٹھاتے ہیں کہ وہ آئین پاکستان کا احترام کریں گے اور سیاست میں مداخلت بھی نہیں کریں گے مگر پھر یہ عہد توڑ دیا جاتا ہے۔ جس قوم کے لوگ اللہ سے کیے ہوئے وعدے توڑ دیں، اس کا حال کیا ہو سکتا ہے۔ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ تم نا قدرے لوگ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ملک پر مہربانی کی اور اس دھرتی پر عمران جیسا بہادر اور مستقبل بین پیدا کیا مگر تمہارے ملک کے مافیاز اس کے خلاف ہیں۔ وہ اپنی خاطر نہیں، تمہارے لئے قیدی بن گیا ہے۔ اسی لئے اس بار نوعیت مختلف ہے، اس بار قوم اس کے ساتھ ہے جو پس دیوار زنداں ہے۔ رہی سزاؤں کی بات تو اعلیٰ عدالتوں سے یہ سزائیں ختم ہو جائیں گی۔ اگر 8 فروری کو الیکشن ہوئے تو لوگ اسے ووٹ ڈالیں گے، نتائج کو تبدیل کیا گیا تو شور مچے گا اور پھر فروری کے تیسرے ہفتے میں ہر طرف افراتفری نظر آئے گی، عوامی طاقت آئے گی، عوام کا راج ہو گا۔ ایک معاشی اور سماجی انقلاب پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ تمہیں پتہ ہے کہ اڈیالہ جیل میں سارا دن مقدمات کی کارروائیاں چلتی ہیں اور پھر کوئی رات کو آکر عمران سے کہتا ہے کہ ڈٹے رہو۔ وہ کون ہے ؟ اس سے نہ اڈیالہ جیل کی انتظامیہ واقف ہے نہ عدالتی کارروائیاں کرنے والے اور نہ پس دیوار قوتیں...... اس کون سے، صرف صاحب حال واقف ہیں۔ وہ اڈیالہ جیل میں کئی مرتبہ آ چکا ہے، عمران خان کو تھپکی دے چکا ہے۔ کوئی تو ہے جو عمران خان کو آیات نکال کر بتاتا ہے، بس اس سے زیادہ میں بات نہیں کر سکتا، بگل بج چکا ہے‘‘۔ یہ کہہ کر بودی سرکار تو چپ ہو گئے مگر ہمارے لئے سوچوں کا سمندر چھوڑ گئے۔ مجھے خوبصورت شاعر افتخار عارف کے کچھ اشعار بہت یاد آتے رہے کہ
جاہ و جلال، دام و درم اور کتنی دیر
ریگ رواں پہ نقش قدم اور کتنی دیر
اب اور کتنی دیر یہ دہشت، یہ ڈر، یہ خوف
گرد و غبار عہد ستم اور کتنی دیر
شام آ رہی ہے، ڈوبتا سورج بتائے گا
تم اور کتنی دیر ہو، ہم اور کتنی دیر
https://jang.com.pk/news/1316074